(ایجنسیز)
انٹرنیٹ کے بانی کے طور پر معروف سر ٹم برنرز لی نے خبردار کیا ہے کہ ویب کی دنیا کے جمہوری رنگ و روپ کو ’نگرانی اور سینسر شپ کے روز افزوں چلن‘ سے خطرہ لاحق ہے۔
ورلڈ وائڈ ویب کی سالانہ ویب انڈیکس رپورٹ کو جاری کرتے وقت ٹم برنرز نے یہ بات کہی۔اس رپورٹ میں دنیا بھر میں ہو نے والی سینسر شپ کے واقعات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فہرست میں شامل 94 فیصد ممالک انٹرنیٹ پر سرکاری ایجنسیوں کی جانب سے کی جانے والی دخل اندازی پر خاطر خواہ نظر نہیں رکھتے۔
رپورٹ میں اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا گیا ہے کہ 30 فیصد ممالک سیاسی طور پر حساس قسم کے اعداد و شمار کو یا تو روک دیتے ہیں یا پھر فلٹر کر دیتے ہیں۔
رپورٹ کے آخر میں سرکاری اداروں کی جانب سے کیے جانے والے جاسوسی کے عمل کے متعلق قوانین کی دفعات پر نظر ثانی کیے جانے کی ضرورت پر زور دیا گيا ہے۔ٹم برنرز نے کہا: ’اس سال کے ویب انڈیکس کی سب سے حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو منظم ہونے، کارروائی کرنے اور عالمی سطح پر جہاں کہیں بھی کچھ بے جا ہو رہا ہے، اسے سامنے لانے میں اپنا کردار ادا کیا ہے اور لوگوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔‘
تاہم انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’بعض حکومتیں اس سے خوف زدہ ہیں۔ نگرانی اور سنسر شپ کے ذریعے اب جمہوریت کے مستقبل کو خوف زدہ کیا جا رہا ہے۔ اظہار کی آزادی اور پرائیویسی
(رازداری) کے بنیادی حقوق کو بچانے کے لیے سخت قدم اٹھانے کی ضرورت ہے۔‘
ٹم نے امریکہ کی نگرانی کا پردہ فاش کرنے والے ایڈورڈ سنوڈن کے وکی لیکس والے انکشاف کے بعد کی گئی سرکاری نگرانی سخت تنقید کی ہے۔
انٹرنیٹ پر کوڈ یا خفیہ زبان میں موجود معلومات کو تلاش کرنے کے لیے خفیہ ایجنسیوں کی طرف سے کی جانے والی سرگرمیوں کو ٹم برنرز نے ’خوفناک اور خبط‘ قرار دیا۔
اس سے قبل انہوں نے کہا تھا کہ برطانیہ اور امریکہ کی خفیہ ایجنسیوں کو توازن برقرار رکھنے کی ضرورت ہے اور قومی سلامتی ایجنسی ( این ایس اے ) اس میں ناکام رہی ہے۔ڈیجیٹل فورنسک علوم کے ماہر پروفیسر پیٹر سمر نے بھی ان سے اتفاق کیا تھا۔
انہوں نے کہا: ’جي سی ایچ کيو ایک خفیہ تنظیم ہے۔ اسے اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت تھی لیکن ابھی تک یہ سامنے آیا ہے کہ ان کی طرف سے استعمال کی جانے والی ٹیکنالوجی غیر واضح ہے۔
’جن چیزیں میں وہ سب مصروف ہیں ان کے لیے وزراء کے حکم کی ضرورت ہوتی ہے لیکن وزراء کی دوسری مصروفیات بھی ہوتی ہیں۔ کیا ان میں ٹیکنالوجی کے تعلق سے فہم و ادراک ہے؟ یا پھر خطرے کا اندازہ کون کر رہا ہے؟‘
کابینہ کے ایک ترجمان نے بی بی سی سے کہا: ’ہماری خفیہ ایجنسیوں کی کامیابی ان کی پرائیویسی پر منحصر ہے۔ اور پرائیویسی کا مطلب غیر ذمہ دارانہ رویہ اپنانا نہیں ہے۔ برطانیہ کی خفیہ ایجنسی سخت کنٹرول اور نگرانی میں کام کرتی ہے۔’